صدقہ اور صدقہ جاریہ چند غلط تصورات کی وضاحت

0
290
صدقہ اور صدقہ جاریہ
صدقہ اور صدقہ جاریہ

صدقہ اور صدقہ جاریہ چند غلط تصورات کی وضاحت

صدقے کا درست مفہوم “فلاح ” یعنی ویلفئیر پہنچانا ہے۔ ہماری سوسائٹی میں صدقے سے متعلق مالی صدقے کے محدود مفہوم لیا جاتا ہے یعنی وہ رقم جو کسی  ضرورت مند کو ادا کردی جائے وہی صدقہ ہے۔ یقینا  کسی کی مالی مدد کرنا صدقہ ہے لیکن صرف یہی صدقہ نہیں۔ صدقہ ہر وہ کام ہے جس کا مقصد اور نتیجہ مخلوق کو فلاح پہنچانا ہو۔ چنانچہ  کسی کو مسکرا کر دیکھنا ، کسی کی تکلیف دور کرنا ، بیمار کی تیمارداری کرنا، کسی سے خوش اخلاقی سے بات کرنا، کسی جانور کو پانی پلادینا، کسی کو کوئی علمی بات بتانا سب صدقہ ہے۔ جدید دور میں دیکھیں تو روڈ پر گاڑی چلاتے وقت کسی کو راستہ دیے دینا صدقہ ہے، کسی کی سواری خراب ہے تو اس کی مدد کرنا صدقہ ہے،کسی طالب علم کو کوئی سوال سمجھادینا صدقہ ہے، کسی کو  روزگار کے حصول میں مدد دینا صدقہ ہے، نکاح کے لیے جوڑوں کی مدد کرنا صدقہ ہے۔

ایک اورغلط  تصور صدقہ جاریہ کے بارے میں ہے ۔ اس سے مراد بالعموم لوگ مسجد وغیرہ کی تعمیر  ہی لیتے ہیں کہ مسجد کی عمارت کافی عرصے تک قائم رہتی ہے اور اس عمارت میں رقم لگانے صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔ بات درست لیکن ادھوری ہے۔ صدقہ جاریہ کا مفہوم ہے جاری رہنے والا صدقہ۔یعنی فلاح کا وہ کام جس کا  فیض یا فائدہ کئی دنوں، مہینوں، سالوں یا صدیوں تک محیط ہو۔ اب یہ کوئی بھی فلاح کا کام ہوسکتا ہے جسے کسی عمارت کی تعمیر تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں وہ آرٹیکلز ، تحریریں اور کتب بھی شامل ہیں جن سے لوگ طویل عرصے تک نفع اٹھاتے ہیں، وہ ایجادات بھی شامل ہیں جنہوں نے ہماری زندگی میں آسانیاں پیدا کیں، وہ سائنسی فارمولے اور اصول بھی شامل ہیں جو موجودہ اور قدیم سائنس کی بنیادیں ہیں، وہ ادارے بھی ہیں جو برسوں سے لوگوں نفع پہنچارہے ہیں۔

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے  آیا صدقہ جاریہ عام صدقے سے زیادہ اہم ہے؟ صدقہ جاریہ کی اصطلاح دراصل اس زمانے میں فلاح کے دو تصورات  کو الگ کرنے کے لیے استعمال ہوئی تھی۔ یعنی ایک تو کسی شخص کی فوری مدد اور دوسرا یہ کہ کسی  فلاحی کام سے ذریعے طویل مدتی مدد۔جہاں تک عام صدقے کا تعلق ہے تو اس کا بھی اثر کافی دیر تک رہتا  اور وہ بھی طویل مدتی ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو کھانا کھلانا بظاہر ایک فوری صدقے کا عمل ہے لیکن اس کھانے سے  اس کی باڈی میں جو خلیات یا سلیز بنیں گے  اور ان کی توانائی کو وہ جب تک استعمال کرتا رہے گا، صدقہ کرنے والے کو اس کا اجر ملتا رہے گا۔ اسی طرح کسی کو مسکرا کر دیکھنے سے اگر اس شخص کی تکلیف دور ہوتی ہے تو اس سکون کی بنا پر اس کی شخصیت میں جو تبدیلیاں آئیں گی وہ صدقہ کرنے والے کے لیے باعث اجر بنتی رہیں گی ۔ چنانچہ ہر صدقہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کسی نہ کسی طور پر صدقہ جاریہ ہی ہے۔  جہاں اجر کا تعلق ہے تو اس کا انحصار ان حالات میں ہے جن میں صدقہ کیا گیا۔  

صدقے کرنے کے کچھ مخصوص طریقے بھی ہمارے ہاں رائج ہیں جیسے  کالے بکرے کا صدقہ ، گوشت پرندوں کو کھلانا، سر پر سے پھیرے دے کر صدقہ کرنا ، انڈا چوراہے پر ڈال دینا وغیرہ۔ ان میں سے اکثر کی نوعیت تو توہمات اور روایات کی ہے۔ البتہ   اس ضمن میں دو پہلو قابل غور ہیں۔ ایک پہلو تو پلے سی بو افیکٹ کا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ انسان کو عمل انہتائی یقین سے کرتا ہے تو اس میں بالعموم کامیاب ہوجاتا ہے۔ چنانچہ صدقہ کی تلقین کرنے والے عام طور پر متاثرہ شخص کی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس قسم کے اعمال تجویز کردیتے ہیں جن پر لوگوں کو عام طور پر یقین ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے ان کی مشکل آسان ہوجائے گی۔

 دوسرا معاملہ رنگوں کا ہے۔ ہماری بیماری اور پریشانی کی بنیادی وجہ ہمارے ارد گرد منفی انرجی کی زیادتی ہوتی ہے جو ہمارے مثالی جسم یا “اورا “کے رنگوں میں عدم توازن کی بنا پر پیدا ہوتی ہے۔ کالے رنگ کا بکرا، سفید چاول یا اس قسم کی اشیاء کو دان کرنے میں اصل اہمیت بکرے یا چاول نہیں بلکہ رنگوں کی ہوتی ہے جس کا مقصد روحانی ماہرین کے نزدیک اس اورا کے عدم تواز ن کو دور کرنا ہوتا ہے ۔گویا اسے روحانیت کے ایک طریق علاج کے پس منظر میں لیا جانا چاہیے جس سے اختلاف یا اتفاق ممکن ہے۔

آخری سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا صدقہ بلاوں کو ٹالتا ہے؟ دنیا کے ہر مذہب میں صدقے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ صدقہ دراصل فلاح پہنچانے کا عمل ہے۔ یہ دنیا نیچر پر قائم ہے اور اس کا اصول یہی ہے کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے۔ چنانچہ جب کوئی شخص کسی کو فلاح پہنچاتا ہے تو وہ بھی نیچر کے قانون کے تحت فلاح حاصل کرنے کا مستحق بن جاتا ہے جو اس کی مشکلات میں کمی یا خاتمے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

ڈاکٹر محمد عقیل

Leave a Reply