مشکلات کیوں آتی ہیں

0
315
Why do difficulties arise مشکلات کیوں آتی ہیں
Why do difficulties arise مشکلات کیوں آتی ہیں

مشکلات کیوں آتی ہیں

سوال : آپ نے لکھا ہے کہ صدقہ  مصیبتوں کو ٹالتا ہے اور یہ نیچر کا ایک قانون ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ صدقہ کرتے ہیں اور پھر بھی ان پر مشکلات آتی رہتی ہیں۔ کیا یہ لوگ اس قانون سے مستثنی ہوتے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے ؟

مشکلات کیوں آتی ہیں

جواب : یہ بہت اہم اور دلچسپ سوال ہے۔ اس پر ایک تھیسس لکھا جاسکتا ہے۔ مختصرا یہ عرض کردوں کہ

انسان دنیاوی اور غیبی امور دونوں میں محض ایک قانون کے ماتحت نہیں ہوتا بلکہ بیسیوں قوانین اس پر لاگو ہوتے ہیں۔ عین ممکن ہے ایک شخص کسی ایک قانون کی تو پابندی کررہا ہو  اور اس کی بنا پر وہ کسی مثبت نتیجے کا مستحق ہو۔ لیکن اسی دوران یہ ممکن ہے کہ وہ کسی اور قانون کی خلاف ورزی کررہا ہو جس کا نتیجہ اسے بھگتنا ہے۔

مثال کے طور پر دنیاوی طور پر ایک شخص  محض فزکس ہی نہیں ، بلکہ کیمسٹری، بیالوجی، اکنامکس ، اور دیگر قوانین کے ماتحت ہوتا ہے۔ اگر ایک شخص فزکس کے قانون کی پابندی کررہاہے  تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اکنامکس کے قانون کی خلاف ورزی پر اسے کھلی چھوٹ مل جائے گی۔ سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کریں۔ ایک شخص اپنے صحت کے اصولوں کی بے حد پابندی کرتا اور کھانے پینے، سونے جاگنے، واک کرنے اور جراثیم  سے بچنے میں  بہت احتیاط کرتا ہے۔ چنانچہ صحت کا قانون اسے انعام کے طور پر ایک اچھی اور عمدہ صحت مند زندگی عطا کردیتا ہے جو فطرت کے اس قانون کے تحت ہے کہ ” جو تم بوتے ہو، وہی تم کاٹوگے”۔ لیکن وہی شخص ڈرائیونگ کے معاملے میں بہت بے احتیاط ہے اور ٹریفک کے قوانین کی بالکل پابندی نہیں کرتا، نہ سگنل کو خاطر میں لاتا اور نہ ہی ڈرائیونگ میں مطلوبہ احتیاط کرتا ہے۔ چنانچہ نیچر کا  وہی  قانون”جو تم بوتے ہو وہی کاٹو گے” اسے اپنی گرفت میں لے کر اسے کسی ایکسڈنٹ سے دوچار کردیتا ہے اور وہ جسم جو صحت کی خرابی سے محفوظ رہا، کسی اور جرم کی بنا پر زخمی ہوگیا۔

یہی معاملہ غیبی  اوردنیوی قوانین کا بھی ہے۔ نظام الٰہی  کے تحت انسان کو کئی قوانین کا سامنا ہوتا ہے اور انسان کے سے پیش ہونے والے معاملات کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ بعض اوقات انسان کسی ایک قانون کی تو پابندی کررہا ہوتا ہے لیکن کسی دوسرے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے جس کے نرغے میں وہ آجاتا ہے  جیسا کے اوپر کی مثال میں بیان کیا گیا ۔  بعض اوقات انسان  کے اعمال میں کوئی کمی کوتاہی نہیں ہوتی ، البتہ آزمائش یا جانچ کی بنا پر اسے مشکل یا مصیبت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اس کی بہترین مثال حضرت ایوب کی بیماری ہے۔بعض اوقات کسی شخص  میں مطلوبہ استعداد پیدا کرنے کے لیے اسے آزمائش  سے گذارا جاتا ہے ۔  جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام ، جن کا ایک اہم مقصد  مصر کا حکمران بناناتھا تاکہ عوام کو آنے والے طویل قحط میں ریلیف فراہم کیا جاسکے۔ بعض اوقات  انسان کے اعمال میں تو کوئی خامی نہیں ہوتی، البتہ نظام الٰہی کی کسی گرانڈ اسکیم کے تحت نافذ کی جانے والی مصیبت کا وہ بھی شکار ہوجاتا ہے جیسا دوسری جنگ عظیم میں ان بچوں اور بعض معصوم لوگوں  کا ہلاک  ہوجانا جو کسی طور اس جنگ کے ذمہ دار نہ تھے۔  بعض اوقات دیگر انسانوں کے آزادانہ اختیار کے غلط استعمال سے پیدا ہونے والی  اجتماعی مصیبتوں کا کوئی شخص شکار ہوجاتا ہے ۔ اس کی مثال حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسیوں کے نیتجے میں معاشی مسائل پیدا ہوجانا ہیں جس سے وہ شخص بھی متاثر ہوجاتا ہے جو ان حکمرانوں کا تو نہ تو لانے کا سبب ہے اور نہ ہی ان پالیسیوں کا ذمہ دار۔ 

کسی شخص کے ساتھ پیش آنی والی مشکل کی اصل وجہ کیا ہے؟ یہ جاننا  بعض اوقات بہت آسان ہوتا ہے بعض اوقات بے حد پیچیدہ۔ دنیوی معاملات میں تو کوئی شخص اسباب و علل کے قانون کے ذریعے یہ جان سکتا ہے کہ کسی مسئلے کی کیا وجہ ہے۔ البتہ غیبی امور میں یہ تعین کرنا کہ پیش آنے والی مصیبت ہماری کوتاہی ہے، کوئی آزمائش ہے، کوئی فائدہ مند تدبیر ہے یا کچھ اور ، یہ بہت مشکل کام ہے۔ اس کی  مثال حضرت موسی اور خضر  کے واقعے سے ملتی ہے کہ جس میں کشتی والا ابتدائی طور پر  یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ میری ہی کشتی میں سوراخ کیوں ہوا، والدین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کا بیٹا کیوں فوت ہوگیا۔ یہاں تک کے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسی بھی اس پس منظر سے ناواقف رہتے ہیں جب تک انہیں آگا ہ نہ کیا جائے۔

آنے والے مصیبت  ہماری کسی کوتاہی کے سبب تنبیہہ یا عذاب کی صورت میں  آئی ہے یا  یہ کوئی امتحان یا ٹریننگ ہے۔ اس کا تعین ایک ٹیکنک سے کیا جاسکتا ہے۔ اگر مصیبت پڑنے کے بعد اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملے تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عذاب یا تنبیہہ ہے۔اور اگر اس مصیبت سے نکلنے کے کئی راستے مل جائیں تو سمجھ لیں کہ یہ آزمائش ہے جس کا مقصد انسان کے قول کو عمل سے جانچنا اور اس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔

ڈاکٹر محمد عقیل

Leave a Reply