sherazi313@gmail.com +(92) 321 5083475

امیر ہونے کا کامیاب نسخہ

امیر ہونے کا کامیاب نسخہ

امیر ہونے کا کامیاب نسخہ

(ایک سچا واقعہ اور آزمودہ روحانی و مالی فارمولہ)

جمعہ 26 جنوری کو جب شرجیل نے لاہور سے فون کیا تو اتنا جوش و خروش میں تھا کہ میرا حال احوال دریافت کرنا بھی بھول گیا۔
کہنے لگا:

بھائی جان! میں نے تین کروڑ بیس لاکھ روپے کی دکان خرید لی ہے۔

میں نے پوچھا:

“اس وقت کہاں ہو؟”
کہنے لگا:
“کراچی میں ہوں، دو دن بعد لاہور پہنچوں گا۔ لاہور آتے ہی مجھے فون کیجئے گا۔”

سچی بات تو یہ ہے کہ اس کامیابی پر مجھے اطمینانِ قلب محسوس ہوا۔


پہلا سوال: کامیابی کا راز کیا ہے؟

شرجیل نے تقریباً دس سال قبل ایم ایس سی مکمل کی تھی، مگر گھریلو حالات کے باعث نوکری یا کاروبار کی فوری ضرورت تھی۔ ایک روز وہ مجھ سے بولا:

بھائی جان! کوئی ٹھوس اور قابلِ عمل حل بتائیں تاکہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاؤں۔

میں نے غور و فکر کے بعد کہا:

“تین دن بعد اسلام آباد جا رہا ہوں، میرے ساتھ چلنا۔”

اور پھر ہم میرے ایک بزرگ دوست قاضی صاحب کے پاس پہنچے۔ وہ حکیم اور روحانی دانشور ہیں۔


اللہ تعالیٰ کو اپنا بزنس پارٹنر بنانا

ہم نے قاضی صاحب کو ساری صورت حال بتائی۔ وہ بہت تحمل سے سنتے رہے۔ پھر فرمانے لگے:

شرجیل صاحب! آپ حوصلہ مند دکھائی دیتے ہیں۔ دو کام کیجئے:
(1) کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کیجئے
(2) اور دوسرا، جو بھی کریں، اللہ تعالیٰ کو اپنا بزنس پارٹنر بنائیے۔

ہم دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

قاضی صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی نفع ہو، اس میں سے 5 فیصد خالص اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیا کریں۔ شرط یہ ہے کہ اس میں کبھی ہیرا پھیری نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسا شخص کبھی خسارے میں نہیں جائے گا، بلکہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے گا۔


شرجیل کا پہلا قدم

مجھے اندیشہ تھا کہ شرجیل شاید اس پر عمل نہ کرے، لیکن اس نے عمل کر کے دکھایا۔

یہ 1997 کی بات ہے، اُس کے پاس صرف 1000 روپے تھے۔ اس نے کسی سے قرض نہ لیا، نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا۔

اس نے بچوں کے پانچ سوٹ خریدے اور انارکلی بازار میں ایک شیئرنگ اسٹال پر رکھ دیے۔
دو دن میں 300 روپے کا منافع ہوا۔
اس نے اس میں سے 5 فیصد یعنی 15 روپے اللہ کی راہ میں دے دیے۔

اسی طرح وہ مزید کپڑے خریدتا رہا اور منافع کا 5٪ روزانہ نکالتا رہا۔


ترقی کا سفر

چند ماہ میں یہ 5 فیصد روزانہ 75 روپے بن گیا یعنی روزانہ کی آمدنی تقریباً 700 روپے ہو گئی۔

ایک سال بعد 5 فیصد 150 روپے، اور تین سال بعد روزانہ 5 فیصد 300 روپے ہونے لگے۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کی روزانہ کی آمدنی 6000 روپے ہو گئی تھی۔

اب اس نے اسٹال چھوڑ کر دکان خرید لی۔


آج کی کامیابی

جب حالیہ فون پر میں نے پوچھا:

اب روزانہ 5 فیصد کتنے بنتے ہیں؟

تو شرجیل نے بتایا:

روزانہ 1000 روپے، جو میں خلقِ خدا پر خرچ کرتا ہوں۔”

یعنی اب اس کی روزانہ آمدنی 20 ہزار روپے ہے۔
اور سب سے بڑی بات:

آج تک اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کی گئی اس شراکت داری میں کبھی بےایمانی نہیں کی۔


قاضی صاحب کا فارمولا

قاضی صاحب نے کہا تھا:

جس کاروبار میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حصہ رکھ لیا جائے، وہ کاروبار پھلتا پھولتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ بندے کے دل میں تکبر نہ ہو بلکہ عاجزی ہو۔

یہ فارمولا بزرگوں سے منتقل ہوا اور آج تک کبھی ناکام نہیں ہوا۔


عالمی سطح پر آزمودہ حقیقت

دنیا کے بڑے امیر ترین افراد کی زندگیوں کا اگر مطالعہ کریں تو سب میں ایک قدر مشترک نظر آتی ہے:
باقاعدہ خیرات اور فلاحی کاموں میں سرمایہ لگانا۔

مثالیں ملاحظہ کریں:

1. اوپرا ونفری (Oprah Winfrey)

51 سالہ ٹی وی میزبان، مالیت: 1.3 ارب ڈالر
ہر سال 1 لاکھ ڈالر یتیم بچوں پر خرچ کرتی ہیں۔

2. سلویو برلسکونی (Silvio Berlusconi)

اٹلی کے سابق وزیرِ اعظم، مالیت: 10 ارب ڈالر
سالانہ 5 کروڑ ڈالر غریب ملکوں کو بھیجتے ہیں۔

3. بل گیٹس (Bill Gates)

دنیا کے امیر ترین افراد میں، مالیت: 96 ارب ڈالر
اپنی فاؤنڈیشن کے ذریعے ہر سال 27 کروڑ ڈالر انسانی فلاح پر خرچ کرتے ہیں۔

4. جارج سوروس (George Soros)

مشہور یہودی سرمایہ کار، مالیت: 10+ ارب ڈالر
ہر سال 10 کروڑ ڈالر فلاحی اداروں کو دیتے ہیں۔


یہودیوں کی دانش مندی

صرف 1 کروڑ یہودی دنیا کی 60 فیصد دولت کے مالک ہیں، جب کہ باقی 6 ارب انسان 40 فیصد دولت پر قابض ہیں۔

دنیا کے 90 فیصد بڑے میڈیا اور معاشی ادارے ان کے ہاتھ میں ہیں۔

اس کی ایک اہم وجہ:

ہر یہودی اپنی آمدن کا کم از کم 20 فیصد فلاحی کاموں پر خرچ کرتا ہے۔


پاکستان کی مثال: منشی محمد

انتہائی غریب شخص، بازار میں کپڑا بیچتے تھے۔
فیصلہ کیا کہ اپنی آمدن کا 4 فیصد اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے۔

رفتہ رفتہ وہ پاور لوم کے مالک، پھر فیکٹری کے مالک بن گئے۔
ایک دن 4 کروڑ روپے کی لاگت سے منشی محمد ہسپتال لاہور بنا کر حکومت کو تحفہ دے دیا۔
افتتاح جنرل ضیاء الحق نے کیا۔


حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دو بھائیوں کا واقعہ

دو بھائی، دن میں ایک بار کھاتے تھے، فاقہ کرتے تھے۔
حضرت موسیٰؑ سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ سارا رزق ایک ہی بار دے دے۔
دعا قبول ہوئی۔
انہوں نے سارا رزق اللہ کی مخلوق پر تقسیم کر دیا۔
اگلے دن پھر رزق آ گیا۔ اور روزانہ آتا رہا۔

حضرت موسیٰؑ نے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ کا جواب آیا:

جو شخص میرے نام پر رزق بانٹتا ہے، میں اسے دس گنا عطا کرتا ہوں۔


قرآن کا وعدہ

“جو شخص میرے نام پر ایک درہم خیرات کرتا ہے، میں اس کے بدلے دس عطا کرتا ہوں۔ جو ایک بھوکے کو کھلاتا ہے، اسے دس کا کھانا ملتا ہے۔”


نتیجہ: آزمودہ اور ناقابلِ شکست نسخہ

یہ شنید نہیں، دید ہے کہ جو شخص اصل منافع میں سے کم از کم پانچ فیصد اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، وہ بہت جلد دولت مند بن جاتا ہے۔


آپ بھی اس نسخے کو آزمائیں!
اللہ تعالیٰ کو بزنس پارٹنر بنائیں، نفع کا حصہ مخلوقِ خدا پر خرچ کریں، دل سے دیں، دھوکہ نہ دیں، تکبر نہ کریں، اور پھر اللہ کی طرف سے برکت، ترقی، عزت اور سکون کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کریں۔


Discover more from Mehrban Foundation Islamabd

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Lorem Ipsum

About Author:

Syed Abdul wahab Shah

STAY CONNECTED:

Leave a Reply