برکت، نجات اور کامیابی کا راستہ

انفاق فی سبیل اللہ: برکت، نجات اور کامیابی کا راستہ
انفاق فی سبیل اللہ قرآن کریم کی ایک خاص اصطلاح ہے جو تقریباً ہر سپارے میں نظر آتی ہے۔ قرآن و حدیث میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی بے شمار ترغیبات بیان ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوۡا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّأۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ”
“اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے، اس میں سے خرچ کرلو اس دن کے آنے سے پہلے جس دن نہ بیع ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی، اور نہ ہی کوئی سفارش چلے گی۔”
(البقرۃ: 254)
یعنی قیامت آنے سے پہلے ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے کچھ خرچ کرلو، کیونکہ قیامت کا دن ایسا دن ہوگا جہاں دنیا کی طرح خرید و فروخت نہ ہوگی کہ آپ کسی کو قیمت دے کر خرید لیں، نہ دوستیاں کام آئیں گی، اور نہ سفارشیں فائدہ دیں گی۔
اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھاتے ہیں
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“یَمۡحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرۡبِی الصَّدَقٰتِ”
“اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔”
(البقرۃ: 276)
یعنی سود سے بظاہر مال کتنا ہی بڑھتا نظر آئے، مگر انجام کار اس میں نقصان اور نحوست ہوگی۔ برعکس اس کے، صدقات سے بظاہر مال میں کمی ہوتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دیتے ہیں اور وہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
انفاق کرنے والوں کے لیے دنیا و آخرت کا انعام
اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے والوں کو دنیا میں دس گنا، اور آخرت میں ستر گنا اجر ملتا ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایمان افروز واقعہ
ایک بار مدینے میں قحط پڑ گیا، بازاروں سے غلہ ختم ہو گیا، لوگ سخت پریشان تھے۔ اچانک لوگوں نے دیکھا کہ 1200 اونٹ غلے کے ساتھ مدینے کی منڈی میں آ گئے۔ لوگ حیران رہ گئے کہ یہ کس تاجر کا مال ہے؟ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ سارا مال حضرت عثمانؓ کا ہے، جو آپ نے شام سے منگوایا تھا۔
مدینے کے تمام تاجر مال خریدنے کے لیے آ گئے۔ بولی لگنے لگی۔ کسی نے کہا: “ہم 40 روپے من کے حساب سے خریدیں گے۔” حضرت عثمانؓ نے فرمایا: “کم ہے۔” دوسرے تاجر نے کہا: “ہم 50 روپے من کے حساب سے خریدیں گے۔” حضرت عثمانؓ نے پھر فرمایا: “کم ہے۔”
الغرض بولی بڑھتی رہی، بالآخر تمام تاجر خاموش ہو گئے اور کہا:
“اس سے زیادہ کوئی تاجر نہیں دے گا، آپ کو کتنا منافع چاہیے؟”
حضرت عثمانؓ نے فرمایا:
“جس تاجر سے میں نے سودا کیا ہے وہ مجھے دس گنا منافع دے گا، اور آخرت میں ستر گنا دے گا۔”
یہ فرما کر آپؓ نے سارا مال فری لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ یہ ہے وہ سخاوت جس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی فخر کرتے ہیں۔
دنیا کی امیر ترین قوم: یہودی
آج کی دنیا کی سب سے امیر قوم یہودی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مال کا 20 فیصد خیرات کرتے ہیں۔ اللہ کا یہ قانون سب کے لیے یکساں ہے کہ خرچ کرنے والے کو کم از کم دس گنا منافع ملے گا، چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر۔ اسی قانون کے نتیجے میں یہودی اتنا فائدہ حاصل کرتے ہیں کہ وہ دنیا کی معیشت پر قابض ہیں۔
بل گیٹس کی مثال
دنیا کا مشہور ترین امیر شخص بل گیٹس کئی سال تک دنیا کا امیر ترین انسان رہا۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ ہر سال اتنی خیرات کرتا تھا کہ اس کی خیرات پاکستان کے پورے سال کے بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتی تھی۔
منشی ہسپتال لاہور: سچائی اور انفاق کا زندہ نمونہ
لاہور میں ایک ہسپتال ہے جس کا نام ہے منشی ہسپتال۔ اس ہسپتال کا بانی منشی محمد ایک نہایت غریب کپڑا فروش تھا۔ کسی نے اسے بتایا کہ تم اپنے منافع میں سے کچھ فیصد مقرر کرکے مستحق لوگوں پر خرچ کرو، بڑا فائدہ ہوگا۔
اس نے 4 فیصد مقرر کر دیے، اور ہر مہینے اپنے منافع سے اتنا خرچ کرتا رہا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کا کاروبار بڑھنے لگا۔ پھر وہ فیکٹری کا مالک بن گیا۔ وہ مستقل 4 فیصد خرچ کرتا رہا۔ آخرکار ایک وقت ایسا آیا کہ اس نے کروڑوں روپے مالیت کا ایک ہسپتال تعمیر کرایا، جس کا افتتاح جنرل ضیاء الحق نے کیا۔ آج بھی یہ ہسپتال لاہور میں منشی ہسپتال کے نام سے کام کر رہا ہے۔
میرا ذاتی تجربہ
ان واقعات کو پڑھ کر میں نے بھی فیصلہ کیا کہ میں اپنی تنخواہ میں سے باقاعدگی کے ساتھ پانچ فیصد خرچ کیا کروں گا۔ چنانچہ میں نے اپنے جیب پرس کے ایک خانے میں “السّیف ٹرسٹ” قائم کیا، اور بال پین سے اس پر یہی نام لکھ دیا۔
اس وقت میری تنخواہ صرف 8000 روپے تھی۔ میں نے ہر مہینے 5 فیصد نکال کر کسی مسجد، مدرسے یا غریب کو دینا شروع کیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وہی 8000 روپے جن سے میرے ذاتی اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے، ان میں اتنی برکت آ گئی کہ میں نے گھر والوں کو بھی دینا شروع کر دیا۔
کچھ عرصے کے بعد میں نے وہاں سے کام چھوڑ کر دوسری جگہ جانا چاہا، اور میری تنخواہ صرف 6000 روپے مقرر ہوئی۔ لیکن میں نے پانچ فیصد دینا نہیں چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ نے ان چھ ہزار میں ایسی برکت دی کہ مہنگائی کے باوجود نہ صرف میرے، بلکہ میرے بیوی بچوں کے تمام اخراجات با آسانی پورے ہونے لگے۔
مجھے ایسے ایسے فائدے ہوئے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ اس سے متاثر ہو کر میں نے 5 فیصد کو بڑھا کر 10 فیصد کر دیا۔ اس سے مزید برکت ہوئی، اور تنخواہ بھی بڑھ گئی۔ ایک سال کے بعد میں نے مزید اضافہ کر کے 20 فیصد کر دیا۔ اور اب، الحمدللہ، میں ہر ماہ باقاعدگی سے اپنی آمدن کا 20 فیصد فوراً نکال لیتا ہوں۔ اس سے جو فائدے حاصل ہوئے وہ ناقابلِ بیان ہیں۔
میرا عزم
مجھے احساس ہے کہ میں ابھی بھی کوئی بڑا کمال نہیں کر رہا، کیونکہ 20 فیصد تو یہودی بھی خرچ کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ، میرا پختہ عزم ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناتے میں یہودیوں کو بھی اس میدان میں پیچھے چھوڑوں گا۔
یہ سب بتانے کا مقصد
یہ سب کچھ آپ کو بتانے کا مقصد ریا کاری نہیں، بلکہ صرف ترغیب دینا ہے۔
امید ہے آپ بھی اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مال کو اپنی رضا کے لیے خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Discover more from Mehrban Foundation Islamabd
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Lorem Ipsum